ایک غزل احباب کی نذر
خود اپنی چاپ سے ساے سے اپنے ڈرنا ہے
کہ گام گام لرزنا ہے اور بدکنا ہے
ابھی بدن کے مراحل میں جان الجھی ہے
ابھی تو روح کا دریا عبور کرنا ہے
تو مجھ کو دوش نہ دے میں تجھے غلط نہ کہوں
یہ موڑ وہ ہے جہاں راستہ بدلنا ہے
کہیں سے آے کوئ مجھ کو ساتھ لے جاے
ہر ایک قید سے اب جان کو نکلنا ہے
فریب-شام ہے سورج بھی چھپ گیا ہے کہیں
ہر ایک شئے کو ترے ساتھ ساتھ چلنا ہے
اکرم نقاش
neurontin without prescription, dapoxetine without prescription.