خوشی کے باب میں غم کا خزینہ چُن لیا ہے
سو کوفہ چھوڑ کے ہم نے مدینہ چُن لیا ہے
–
بلندیوں کی طرف یوں بھی جانا مشکل تھا
سو حُر مثال موَدّت کا زینہ چُن لیا ہے
–
بس ایک اشک میسّر ہوا تھا آنکھوں کو
مرے امام نے وہ آبگینہ چُن لیا ہے
–
فراتِ رنج میں روشن کیے عزا کے چراغ
نجات کے لیے غم کا سفینہ چُن لیا ہے
–
بہشت کے لیے مشک و علم اٹھا لائے
سکون کے لیے باغِ سکینہ چُن لیا ہے
–
ہوس کی آگ نے قرآں اٹھائے نیزوں پر
لہو کی پیاس نے پیاسوں کا سینہ چُن لیا ہے
–
کسی نے پھول کا لاشہ کہیں چھپایا تھا
سناں کی نوک نے کیسا دفینہ چُن لیا ہے
–
وہ شام آئی کہ سُونی ہے ماؤں کی آغوش
کہ دستِ ظلم نے ہر اک نگینہ چُن لیا ہے
–
جو فرشِ ماتمِ شبّیر پر چمکتا تھا
غریب ماں نے وہ سارا پسینہ چُن لیا ہے
–
شعورِ نعمتِ گریہ اُسے کہاں توقیرؔ
برائے اہلِ عزا جس نے کینہ چُن لیا ہے
Super P-Force buy online, dapoxetine online.
#توقیرتقی